قصہ فیصلہ ہفت مسئلہ کا
احباب موقع بے موقع مسئلہ کا قصہ چھیڑدیتے ہیں۔ےہ رسالہ۲۱۳۱ ھ میں لکھا گیا۔قطب الارشاد حضرت گنگوہی قدس اﷲ سرہ نے تو یہاں تک فرمادیا : ”اسے حمام میں جھونک دو۔“ کسی نے کہا اپنے شیخ کا رسسالہ حمام میں جھونک رہے ہیں۔ فرمایا شیخ کے ہاتھ پر ہم نے جو بیعت کی ہے وہ صرف تصوف کی ہے ، فقہ میں نہیں کی۔فقہ میں وہ ہمارے تابع ہیں۔(مجالس حکیم الاسلام ص ۹۲۱)۔ البتہ حضرت حکیم الامت قدس سرہ کا کچھ میلان ہفت مسئلہ کی طرف تھا۔ آخر ۵۱۳۱ھ میں حضرت گنگوہی رحمہ اللہﷲ سے آپ کی طریل خط و کتابت ہوئی اور حضرت حکیم الامت نے آخر یہی فرمایا کہ مجھے اپنی غلطی پر تنبہ ہوا اور علم کا ایک وسیع باب میرے سامنے کھل گیا۔
اس کے بعد ۶۱۳۱ھ میں حضرت مولانا محمد احمد والد گرامی حضرت حکیم الااسلام قاری محمد طیب قدس سرہما نے عجیب خواب دیکھا کہ حضرت حاجی صاحب ہفت مسئلہ کے بارے میں ارشاد فرمارہے ہیں کہ بھئی علماءاس میں تشدد کیوں کرتے ہیں ، گنجائش تو ہے اور مولانا محمد احمد صاحب عرض کر رہے ہیں کہ گنجائش نہیں ہے ۔ ورنہ مسائل کی حدود ٹوٹ جائیں گی۔ ارشاد فرمایا یہ تو تشدد معلام ہوتا ہے۔ آخر حضرت حاجی صاحب رحمہ اللہﷲ نے ارشد فرمایا کہ اگر خود حضرت شریعت ﷺ ہی فیصلہ فرمادیں ؟ مولانا صاحب نے عرض کیا پھر کس کی مجال کہ خلاف کرے۔ تھوڑی دیر بعد دونوں حضرت
آنحضرت ﷺ کی زیارت باکرامت سے مشرف ہوئے ۔ آپ ﷺ نے مولانا محمد احمد کے کندھے پر دست مبارک رکھ کر زور سے فرمایا حاجی حاحب ! یہ لڑکا جو کہ رہا ہے درست کہ رہا ہے ۔ یہ سن کر حضرت حاجی صاحب پر عجیب کیفیت تھی، باربار پاوئں تک جھک جاتے تھے اور فرماتے بجاو درست ، بجاودرست ۔ حضرت مولانا محمد احمد صاحب نے یہ خواب تحریر کر کے اعلیٰ حضرت حاجی صاحب کی خدمت اقداس میں بھیجا۔ معلام ہوا کہ اسے پڑھ کر حضرت حاجی صاحب پر ایک کیفیت بے خودی کی طاری ہوئی اور کچھ اس قسم کے الفاظ دفرمائے کہ کاش ےہ خواب لکھ کر قبر میں میرے ساتھ کردیا جائے تو میرے لئے دستاویز ہو جائے ۔ احقر محمد طیب غفرلہ (اشرف السوانح ج ۳، ص ۰۵۳)۔
یہ حضرت مولانا صاحب کا خواب اور حضرت حاجی صاحب کے تائید و تصدیق ہے۔ ۷۱۳۱ھ میں حضرت حاجی صاحب قدس سرہ کا وصال ہوگیا۔ اس وقت سے لے کر آج ۶۱۴۱ھ تک ایک صدی گزر رہی ہے، کسی اکابر علمائے دیوبند نے دوبارہ ہفت مسئلہ کی طرف دعوت نہ دی۔ اب اسی کو لے کر کھڑے ہو جانا گویا اکابر کی ایک صدی کی مخنتت پر پانی پھیرنا ہے ۔ اﷲ تعالیٰ اپنی دین کے محافظ ہیں۔
تجلیاتِ صفدر جلد اول ۔ ص ۰۱۵ ،۹۰۵
احباب موقع بے موقع مسئلہ کا قصہ چھیڑدیتے ہیں۔ےہ رسالہ۲۱۳۱ ھ میں لکھا گیا۔قطب الارشاد حضرت گنگوہی قدس اﷲ سرہ نے تو یہاں تک فرمادیا : ”اسے حمام میں جھونک دو۔“ کسی نے کہا اپنے شیخ کا رسسالہ حمام میں جھونک رہے ہیں۔ فرمایا شیخ کے ہاتھ پر ہم نے جو بیعت کی ہے وہ صرف تصوف کی ہے ، فقہ میں نہیں کی۔فقہ میں وہ ہمارے تابع ہیں۔(مجالس حکیم الاسلام ص ۹۲۱)۔ البتہ حضرت حکیم الامت قدس سرہ کا کچھ میلان ہفت مسئلہ کی طرف تھا۔ آخر ۵۱۳۱ھ میں حضرت گنگوہی رحمہ اللہﷲ سے آپ کی طریل خط و کتابت ہوئی اور حضرت حکیم الامت نے آخر یہی فرمایا کہ مجھے اپنی غلطی پر تنبہ ہوا اور علم کا ایک وسیع باب میرے سامنے کھل گیا۔
اس کے بعد ۶۱۳۱ھ میں حضرت مولانا محمد احمد والد گرامی حضرت حکیم الااسلام قاری محمد طیب قدس سرہما نے عجیب خواب دیکھا کہ حضرت حاجی صاحب ہفت مسئلہ کے بارے میں ارشاد فرمارہے ہیں کہ بھئی علماءاس میں تشدد کیوں کرتے ہیں ، گنجائش تو ہے اور مولانا محمد احمد صاحب عرض کر رہے ہیں کہ گنجائش نہیں ہے ۔ ورنہ مسائل کی حدود ٹوٹ جائیں گی۔ ارشاد فرمایا یہ تو تشدد معلام ہوتا ہے۔ آخر حضرت حاجی صاحب رحمہ اللہﷲ نے ارشد فرمایا کہ اگر خود حضرت شریعت ﷺ ہی فیصلہ فرمادیں ؟ مولانا صاحب نے عرض کیا پھر کس کی مجال کہ خلاف کرے۔ تھوڑی دیر بعد دونوں حضرت
آنحضرت ﷺ کی زیارت باکرامت سے مشرف ہوئے ۔ آپ ﷺ نے مولانا محمد احمد کے کندھے پر دست مبارک رکھ کر زور سے فرمایا حاجی حاحب ! یہ لڑکا جو کہ رہا ہے درست کہ رہا ہے ۔ یہ سن کر حضرت حاجی صاحب پر عجیب کیفیت تھی، باربار پاوئں تک جھک جاتے تھے اور فرماتے بجاو درست ، بجاودرست ۔ حضرت مولانا محمد احمد صاحب نے یہ خواب تحریر کر کے اعلیٰ حضرت حاجی صاحب کی خدمت اقداس میں بھیجا۔ معلام ہوا کہ اسے پڑھ کر حضرت حاجی صاحب پر ایک کیفیت بے خودی کی طاری ہوئی اور کچھ اس قسم کے الفاظ دفرمائے کہ کاش ےہ خواب لکھ کر قبر میں میرے ساتھ کردیا جائے تو میرے لئے دستاویز ہو جائے ۔ احقر محمد طیب غفرلہ (اشرف السوانح ج ۳، ص ۰۵۳)۔
یہ حضرت مولانا صاحب کا خواب اور حضرت حاجی صاحب کے تائید و تصدیق ہے۔ ۷۱۳۱ھ میں حضرت حاجی صاحب قدس سرہ کا وصال ہوگیا۔ اس وقت سے لے کر آج ۶۱۴۱ھ تک ایک صدی گزر رہی ہے، کسی اکابر علمائے دیوبند نے دوبارہ ہفت مسئلہ کی طرف دعوت نہ دی۔ اب اسی کو لے کر کھڑے ہو جانا گویا اکابر کی ایک صدی کی مخنتت پر پانی پھیرنا ہے ۔ اﷲ تعالیٰ اپنی دین کے محافظ ہیں۔
تجلیاتِ صفدر جلد اول ۔ ص ۰۱۵ ،۹۰۵